ایران میں پولیس کارروائی کے باوجود احتجاجی مظاہروں میں اضافہ

بائیس سالہ مہسا امینی کے چہلم کے موقع پر بدھ کی رات کئی شہروں میں مظاہرے ہوئے جو جمعرات کے روز بھی جاری رہے۔
آج سکیورٹی فورسز نے ان مظاہرین کے خلاف نیا کریک ڈاؤن کیا جو ایک دوسری لڑکی کی اچانک ہلاکت کے خلاف مظاہرہ کر رہے تھے۔
سولہ برس کی نیکا شاکرمی 20 ستمبر کو دارالحکومت تہران سے لاپتہ ہو گئی تھیں۔ اس سے قبل ایک ویڈیو میں وہ احتجاجاً اپنا حجاب جلاتے ہوئے نظر آئی تھیں، اور 10 دن بعد انھیں مردہ پایا گیا تھا۔
مظاہرین کے خلاف سکیورٹی فورسز کے کریک ڈاؤن میں اب تک متعدد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ اگرچہ ہلاکتوں کا صحیح تعداد کے بارے میں مختلف اطلاعات ہیں، تاہم ناروے میں قائم حقوقِ انسانی کی تنظیم ایران ہیومن رائٹس کے مطابق قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارروائی میں اب تک 234 افراد ہلاک ہوئے ہیں جن میں 29 بچے بھی شامل ہیں۔
تمام بڑے شہروں کے ساتھ ساتھ دیگر مقامات پر جہاں حال ہی میں مظاہرے کم ہوئے تھے، ہزاروں افراد سڑکوں پر نکل آئے۔
حکومت کے لیے یہ اسلامی جمہوریہ کے قیام کے بعد سے اب تک کا سب سے سنگین چیلنج ہے۔
ایرانی حکومت ان مظاہروں کو ’فسادات‘ قرار دیتی ہے، جن کے پیچھے اس کے بقول غیر ملکی ہاتھ ہے۔
سوشل میڈیا پر پوسٹ کی گئی اور بی بی سی کی تصدیق شدہ فوٹیج میں بدھ کی رات بڑے پیمانے پر مظاہروں کو دکھایا گیا ہے۔
دارالحکومت تہران میں سڑکوں پر آگ جلائی گئی جبکہ سینکڑوں افراد نے ایک مرکزی سڑک پر مارچ کرتے ہوئے ’ڈکٹیٹر مردہ باد‘ کے نعرے لگائے، جس میں ایران کے سپریم لیڈر کا حوالہ دیا گیا تھا، جو اب معمول بن چکا ہے۔
انسانی حقوق کی ایک تنظیم اور عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ پولیس اہلکاروں نے شہر میں ہجوم پر براہ راست گولیاں چلائیں اور آنسو گیس کے گولے داغے۔