نائجیریا: وہ ملک جسے یہ جاننے میں کئی برس لگ گئے کہ اس کا تیل چوری ہو رہا ہے

نائیجیریا کے نائیجر ڈیلٹا کے علاقے میں تیل کی غیر قانونی پائپ لائنوں کے نیٹ ورک کی دریافت سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ ملک میں تیل کی چوری کس حد تک پھیلی ہوئی ہے جو کہ ملک میں تیل کی انتہائی منافع بخش صنعت تاریک پہلو ہے۔
ملک کے جنوب میں واقع ریاست کے ڈیلٹا والے علاقے میں چوروں نے اپنی چار کلومیٹر لمبی پائپ لائن بچھائی ہے جو کہ بحر اوقیانوس تک جانے والی سخت حفاظتی دھاروں ساتھ گزرتی ہے۔
وہاں وہ کھلے سمندر میں کئی کلومیٹر دور سے دکھائی دینے والے تقریباً سات میٹر کے پلیٹ فارم سے کشتیوں پر ڈھٹائی کے ساتھ چوری شدہ تیل بھرتے ہیں۔
سرکاری تیل کمپنی نائجیرین نیشنل پیٹرولیم کمپنی لمیٹڈ (NNPC) کے سربراہ، میلے کیاری نے کہا کہ ‘یہ ایک پیشہ ورانہ کام ہے۔’ انھوں نے یہ بات ٹیلی ویژن پر پیش کیے جانے والے اپنے دورے کے دوران ایک دلدلے اور پھسلن والے راستے پر چلتے ہوئی کہی۔
بدعنوانی کے شبہات
خام تیل نائجیریا کی سب سے بڑی برآمدات ہے لیکن حکام کا کہنا ہے کہ چوری کی وجہ سے کئی سالوں سے پیداوار اور آمدنی میں کمی آ رہی ہے۔
ایک ضابطہ کار یا ریگولیٹر کا کہنا ہے کہ ملک میں تیل کی پیداوار جو سنہ 2011 میں 2.5 ملین بیرل یومیہ تھی وہ اس سے کم ہو کر جولائی سنہ 2022 میں صرف ایک ملین رہ گئی ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ گذشتہ سال سے اب تک خام تیل کی چوری سے 3.3 ارب ڈالر سے زیادہ کا نقصان ہوا ہے۔ یہ ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب دوسرے پروڈیوسر پیٹرو ڈالر کی بدولت اسراف کر رہے ہیں اور نائیجیریا اپنا پیداواری کوٹہ بھی پورا نہیں کر پا رہا ہے۔
اور ایسا بھی نہیں ہے کہ ملک بدمعاشوں کے ہاتھوں پیسے گنوانے کا متحمل ہو، کیونکہ وہاں وسیع پیمانے پر غربت ہے اور ملک بھاری قرضوں میں پھنسا ہوا ہے۔
بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ غیر قانونی پائپ لائنوں کی حالیہ دریافت اس شعبے میں بڑے پیمانے پر موجود بدعنوانی کو ظاہر کرتی ہے۔ اس شعبے میں بہت کم شفافیت بتائی جاتی ہے۔
نائیجیریا میں تیل کی صنعت میں بدعنوانی کی اپنی تاریخ ہے اور اس کے دستاویزی شواہد موجود ہیں۔ جس میں ایک نہ ختم ہونے والی ایندھن کی سبسڈی سکیم، جس کے بارے میں کوئی بھی نہیں جانتا کہ کتنا درآمد کیا جاتا ہے، سے لے کر تیل کی تلاش کے لیے علاقوں کا غیر واضح انداز میں مختص کیا جانا شامل ہے۔
ٹومپولو
بہر حال اس چوری کا پتا سرکاری حکام کے بجائے ایک پرائیویٹ سکیورٹی کمپنی نے لگایا جس کی وجہ سے عوام میں مزید غصہ اور شکوک و شبہات ہیں۔
لیکن گورنمنٹ ایکپیمیپولی جسے ٹومپولو کے نام سے جانا جاتاہے کوئی معمولی پرائیوٹ سکیورٹی کنٹریکٹر نہیں ہے۔ تیل کی دولت سے مالا مال ڈیلٹا ریاست میں جبراماتو بادشاہت کے 51 سالہ سربراہ جو کبھی ان پائپ لائنوں کو اڑانے میں ملوث تھے اب وہی اس کی حفاظت پر مامور ہیں اور اس کی وجہ 48 بلین نائرا 110 ملین ڈالر) کا متنازع معاہدہ ہےجسے حکومت نے اگست کے اخر میں کیا ہے۔
وہ مبینہ طور پر نائیجیریا کا سب سے امیر تیل کے لیے لڑنے والے سابق جنگجو ہیں جو کبھی ملک کے سب سے زیادہ مطلوب آدمی تھے جبکہ ایک موقعے پر انھوں نے ریاست کو جنگی جہازوں کا بیڑا بھی فروخت کیا تھا۔
وہ نائجر ڈیلٹا، تیل کے کنوؤں اور سرکاری پائپ لائنوں کے جغرافیہ سے بھی بخوبی واقف ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے لوگ چوروں کی شناخت کے بارے میں ان کے بیانیہ پر یقین رکھتے ہیں۔
ٹومپولو نے چینلز ٹی وی کو بتایا کہ ‘سکیورٹی کے بہت سارے لوگ اس میں ملوث ہیں کیونکہ اس علاقے میں سکیورٹی والوں کو [رشوت] دیے بغیر آپ کے لیے جہاز کو لوڈ کرنے کا کوئی طریقہ نہیں ہے۔’
انھوں نے یہ بھی کہا کہ زیادہ تر تیل ان علاقوں سے چوری کیا گیا جہاں فوج اور بحریہ کی چوکیاں تھیں۔
فوج نے ان الزامات کا کوئی جواب نہیں دیا ہے لیکن وہ ممکنہ طور پر کھلے عام اس شخص کی تردید بھی نہیں کر سکتے جس کے ساتھ انھوں نے تیل کی چوری پر کریک ڈاؤن کرنے کے لیے ہاتھ ملایا ہے۔
پس منظر
یہ پہلی بار نہیں ہے کہ نائیجیریا کی سکیورٹی ایجنسیوں، خاص طور پر فوج اور بحریہ کے اعلیٰ افسران پر تیل چوری کا الزام لگایا گیا ہے۔
جنوری میں پڑوسی ریورز ریاست کے گورنر نیسم وائیک نے کہا تھا کہ ایک پولیس سپرنٹنڈنٹ اس ریاست کے ایموہا علاقے میں تیل کی چوری میں ملوث تھا اور وہ اس کی برطرفی کے خواہاں تھے۔
یسنہ 2019 میں وائیک نے ایک اعلیٰ فوجی کمانڈر پر ریاست میں تیل کی بڑے پیمانے پر چوری میں ملوث ہونے کا الزام بھی لگایا تھا جس کی تردید کی گئی ہے۔
بدعنوانی کے خلاف کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم کلین فاؤنڈیشن کے صلاح الدین ہاشم نے کہا کہ براہ راست صدر محمدو بوہاری کے دور میں اس پیمانے پر بدعنوانی کا ہونا بدعنوانی کے خلاف جنگ کے بارے میں ان کے موقف پر سوالیہ نشان لگاتا ہے اور بھی ایسی صورت میں کہ وہ نائیجیریا کے وزیر تیل بھی ہیں۔
بوہاری کو سنہ 2015 میں بدعنوانی سے لڑنے کے وعدے پر منتخب کیا گیا تھا، لیکن بہت سے لوگ ان کی حکمرانی پر سوال کر رہے ہیں۔
ایک تجزیہ کار نے بی بی سی کو بتایا کہ ‘تیل کی جاری چوری کی حد اس وقت تک پوری طرح سے معلوم نہیں ہو سکتی جب تک یہ انتظامیہ مئی میں اپنے عہدے سے سبکدوش نہیں ہو جاتی۔’
منافع بخش صنعت
سنہ 1960 میں آزادی حاصل کرنے کے بعد سے نائیجیریا پر وقفے وقفے سے فوج کی حکومت رہی ہے جس نے بغاوتوں کے ذریعے اقتدار پر قبضہ کیا ہے اور نائیجر ڈیلٹا میں تیل اور گیس کی وسیع صنعت میں ان کے ذریعے مالی بدعنوانی کے سراغ ملتے ہیں۔
ہاشم نے کہا کہ تیل کی تنصیبات کی حفاظت کے لیے علاقے میں افسروں کی تعیناتی کو اعلیٰ سکیورٹی حکام اور مقامی سطح پر کام کرنے والے دونوں کے لیے منافع بخش سمجھا جاتا ہے، جو انھیں حاصل کرنے کے لیے لابنگ کرتے اور رشوت دیتے ہیں۔
انھوں نے مزید کہا کہ ‘ایک بار وہاں پہنچنے کے بعد غیر قانونی دولت جمع کرنے کی [ہر سطح پر] دوڑ لگ جاتی ہے۔’
ڈیلٹا ریاست میں 650,000 لیٹر چوری شدہ خام تیل لے جانے کے الزام میں پکڑے گئے جہاز کو جلانے کے واقعے نے بھی اس جانب توجہ مبذول کرائی ہے۔
بہت سے لوگوں نے سوال کیا کہ سکیورٹی ایجنٹ نے شواہد کو تباہ کرنے میں اتنی جلدی کیوں دکھائی جو کہ ٹومپولو کی حالیہ کامیابی کا ایک حصہ تھی۔ لیکن نائجیریا کے دفاعی سربراہ نے کہا کہ چونکہ پکڑا گیا جہاز چوری شدہ تیل کی سمگلنگ کر رہا تھا، اس لیے تحقیقات کی ضرورت نہیں تھی۔
تیل کی چوری پر کریک ڈاؤن کرنے کے لیے ٹومپولو کی جانب سے ترغیب نے بہت سے لوگوں کو حیران کر دیا ہے۔ بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ اسے اس کا معاوضہ ملتا ہے اور اس نے نائیجیریا اور نائیجر ڈیلٹا کے ماحول سے اپنی محبت کا پرجوش اظہار کیا ہے لیکن یہ وہی ٹومپولو ہے جس نے ماضی میں تیل کی پائپ لائنوں کو اڑا دیا تھا۔ ایک ماہر نے اس نکتے کی جانب اشارہ کیا ہے کہ ٹومپولو کی دریافت کردہ غیر قانونی پائپ لائنیں اسی ڈیلٹا ریاست میں ہیں جہاں وہ بہت زیادہ طاقت رکھتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اس بات کا امکان نہیں ہے کہ کوئی ان کے تسلط والی سرزمین پر ان کے علم کے بغیر پرامن طریقے سے اس طرح کی سہولیات کو اتنے برسوں تک چلایا ہو۔
ماضی میں سکیورٹی فورسز اور اس خطے میں سرگرم مسلح عسکریت پسندوں کے درمیان جان لیوا جھڑپیں ہوتی رہی ہیں، لیکن حالات برسوں سے نسبتاً پرسکون رہے ہیں۔ ایسے میں بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ دونوں طرف سے ایک دوسرے کے ‘کاروبار’ میں مداخلت نہ کرنے کا بنیادی معاہدہ ہے۔
ان تمام پیشرفت کے درمیان ایسا لگتا ہے کہ نقصان اٹھانے والے صرف قانون کی پاسداری کرنے والے نائجیریا کے باشندے اور شاید تیل کمپنیاں ہیں جبکہ مؤخر الذکر کو ملک میں زیادہ ہمدردی حاصل نہیں ہے۔