خاتون کی ہلاکت پر ایران میں احتجاج: ’ژینا نے ہمارے لیے آزادی کا راستہ کھول دیا

ایران کے شہر قیز میں امن و امان کی خراب صورتحال کے باوجود مھسا امینی کو سپرد خاک کر دیا گیا ہے۔
مھسا امینی کے جنازے میں موجود کچھ خواتین نے اپنے سر سے احتجاجاً سکارف اتارے اور وہاں موجود خواتین نے کرد ملی نغمے بھی گائے اور حکومت کے خلاف نعرے بھی لگائے۔
یاد رہے کہ مبینہ طور پر سر ڈھانپنے کے حوالے سے سخت قوانین کی پابندی نہ کرنے کے الزام میں اخلاقی پولیس کے ہاتھوں گرفتار ہونے والی 22 سالہ ایرانی خاتون مھسا امینی جنھیں ژینا بھی کہا جاتا تھا جمعے کو ہلاک ہو گئی تھیں۔
تقریب کے دوران ایک خاتون جو کہ ان کی خالہ بتائی جاتی ہیں انھوں نے مھسا امینی کو ’نوجوانوں کی شہید‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’ژینا (مھسا) نے ہمارے لیے آزادی کا راستہ کھول دیا۔‘
سوشل نیٹ ورکس پر شائع ہونے والی تصاویر اور ویڈیوز سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس تقریب میں سینکڑوں افراد موجود ہیں۔
کچھ ویڈیوز میں ’آمر مردہ باد‘، ’سکارف کے لیے قتل، کب تک سر پر مٹی‘ اور ’عورت، زندگی، آزادی‘ کے نعرے سنائے جا سکتے ہیں۔
سوشل میڈیا پر موجود تصاویر سے پتہ چلتا ہے کہ یہ احتجاج کم از کم سنندج شہر میں شام تک جاری رہا۔
سنیچر کی صبح سے ہی مظاہرین پر گولی چلانے اور سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں ایک شہری کی ہلاکت کے بارے میں متضاد خبریں بھی شائع ہو رہی ہیں۔
تاہم اس خبر کے جاری ہونے کے ساتھ ہی کردستان گورنریٹ کے سیاسی نائب مہدی رمیزانی نے کہا کہ آج کے احتجاج میں کوئی ہلاک نہیں ہوا۔
اس کے ساتھ ساتھ اسلامی جمہوریہ کے خلاف احتجاج اور مھسا امینی کے اہل خانہ سے ہمدردی کی لہر جاری ہے اور مختلف سیاسی گروہوں نے بھی ان کی موت کے حوالے سے بیانات دیے ہیں۔
ایرانی حکومت کی مخالفت کرنے والی کرد جماعتوں کے ایک گروپ نے لوگوں سے کہا کہ وہ ہڑتال پر جائیں اور مھسا امینی کے ’قتل‘ کے خلاف پیر کو کام پر نہ جائیں۔
ایران کے کرد شہروں میں سے سقز اور سنندج میں مظاہرے ہوئے۔ مقامی ذرائع نے بی بی سی فارسی کو بتایا کہ سکیورٹی فورسز کے حملے اور فائرنگ کے نتیجے میں سقز میں کم از کم پانچ افراد زخمی اور کچھ کو گرفتار کر لیا گیا۔
رضا پہلوی نے ایک بیان میں دو روزہ عوامی سوگ کا اعلان کیا۔
ان کا مزید کہنا تھا ’حکومت کے ہاتھوں مھسا امینی کے دلخراش قتل نے ایرانی عوام کے جذبات کو ٹھیس پہنچائی ہے۔ یہ مشترکہ احساس، قومی سوگ، قومی غصہ اور اس قوم کے عزم کی علامت ہے جو اپنے حقوق کے حصول کے لیے موت کے منھ میں کھڑی ہے۔
’ایک 43 سالہ مزاحمت جو نیدا کے خون سے رنگی تھی وہ ژینا کے خون سے ختم نہیں ہو گی۔‘
انھوں نے لکھا کہ ایرانی قوم کو ’غم و غصے‘ کو ’قومی یکجہتی اور کل کی امید‘ سے جوڑنے کی ضرورت ہے۔
ملک کی دوسری اہم سیاسی شخصیات نے بھی امینی کی موت پر بیانات دیے ہیں۔
ان میں سے مہدی کروبی نے ایک بیان میں کہا ’یہ ملک کسی فرد کی خصوصی ملکیت نہیں ہے، اور اس کا مقصد یہ نہیں ہے کہ شریعت، قانون اور اخلاقیات سمیت ہر چیز کو انفرادی خودمختاری کے مطابق سلب کیا جائے۔‘
نیوز ویب سائٹ عرشہ آن لائن کے مطابق اس بیان میں مہدی کروبی نے کہا کہ ’اس قسم کے جرائم، خواتین اور لڑکیوں کی تذلیل اور ہراساں کرنے کے واقعات کو روکنے کے لیے اس کیس کو اس غیر قانونی عمل کے خاتمے تک استمعال کیا جائے۔‘
اصلاح پسندوں کی ایک اور سرکردہ شخصیت عبداللہ نوری نے حکام سے کہا کہ ’وہ اپنی خاموشی توڑیں۔‘
مھسا امینی کی حراست اور پھر ہلاکت
عینی شاہدین کا دعویٰ تھا کہ مھسا امینی کو پولیس وین کے اندر اس وقت مارا پیٹا گیا جب انھیں منگل کو تہران سے حراست میں لیا جا رہا تھا۔
پولیس نے ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ امینی کو ’اچانک دل کا عارضہ لاحق ہو گیا تھا۔‘
حالیہ ہفتوں میں ایران میں حکام کی جانب سے خواتین کے خلاف مظالم کی خبروں کے سلسلے میں یہ تازہ ترین واقعہ ہے۔
امینی کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ وہ ایک صحت مند نوجوان خاتون تھیں جنھیں کوئی بیماری نہیں تھی کہ جس کی وجہ سے انھیں اچانک دل کی تکلیف ہو جاتی۔
تاہم انھیں بتایا گیا کہ امینی کو گرفتاری کے چند گھنٹے بعد ہسپتال لے جایا گیا تھا اور اہل خانہ کا کہنا تھا کہ وہ جمعہ کو ہلاکت سے پہلے کوما میں تھیں۔
تہران پولیس نے کہا کہ امینی کو حجاب کے بارے میں ’جواز اور تعلیم‘ دینے کے لیے گرفتار کیا گیا تھا جو کہ تمام خواتین کے لیے پہننا لازمی ہے۔
ان کی موت ایسے وقت ہوئی ہے جب خواتین کے خلاف جابرانہ کارروائیوں کی خبروں میں اضافہ ہو رہا ہے، ان خبروں کے مطابق اسلامی لباس کے ضابطے کی تعمیل نہ کرنے والی خواتین کو سرکاری دفاتر اور بینکوں میں داخلے سے روک دیا گیا ہے۔
بہت سے ایرانی بشمول حکومت کے حامی افراد سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر اخلاقی پولیس ہونے پر ہی اپنے غم و غصے کا اظہار کر رہے ہیں، جسے ’گشت ارشاد‘ یعنی اصلاحی گشت کا نام دیا گیا ہے اور ہیش ٹیگ استعمال کر رہے ہیں جن کا ترجمہ مرڈر پٹرولز ہے۔
سوشل میڈیا پر ایسی ویڈیوز سامنے آئی ہیں جن میں دکھایا گیا ہے کہ افسران خواتین کو حراست میں لے رہے ہیں، انھیں زمین پر گھسیٹ رہے ہیں اور زبردستی انھیں باہر لے جا رہے ہیں۔
بہت سے صارفین ایرانی رہبر اعلیٰ علی خامنہ ای پر براہ راست الزام عائد کر رہے ہیں۔
سوشل میڈیا پر ان کی ایک پرانی تقریر دوبارہ شیئر کی جا رہی ہے جس میں وہ اخلاقی پولیس کے کردار کو درست قرار دیتے ہیں اور اس بات پر زور دیتے ہیں کہ اسلامی اصول کے تحت خواتین کو اسلامی لباس کوڈ پر عمل کرنے پر مجبور کیا جانا چاہیے۔
تازہ ترین واقعے نے ایران کے نوجوان اور معاشرے کے ایک بڑے حصے اور اس کے بنیاد پرست حکمرانوں کے درمیان تقسیم کو مزید گہرا کر دیا ہے۔ یہ ایک ایسی دراڑ ہے جسے مٹانا اب پہلے سے زیادہ مشکل نظر آتا ہے۔