سیلاب متاثرہ علاقوں میں 40 لاکھ خواتین اور بچوں کو مختلف بیماریوں کا سامنا

پاکستان کے سيلاب متاثرہ علاقوں ميں 40 لاکھ خواتین اور بچے مختلف بيماريوں ميں مبتلا ہیں جنہیں فوری امداد نہ ملی تو زندگيوں کو خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔ اقوام متحدہ اور ديگر اداروں نے حکومت کو خبردار کرديا۔
رواں سال کے تباہ کن سیلاب کے بعد جنم لینے والی بیماریوں نے لاکھوں افراد خصوصاً بچوں اور خواتین کی زندگیوں کو داﺅ پر لگا دیا ہے اور آئندہ دنوں اس میں مزید اضافے کا خطرہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔
سماء انوسٹی گیشن یونٹ کو حاصل ہونے والے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق سیلاب زدہ علاقوں میں لاکھوں لوگ خصوصاً بچے اور خواتین بیماریوں اور بھوک کے خطرے سے دوچار ہیں۔
صوبائی محکمہ صحت، یونیسیف، ورلڈ ہیلتھ پروگرام، نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ اور منسٹری آف ہیلتھ سروسز، ریگولیشنز اور کوارڈینیشن کی جانب سے حکومت کو اگلے دو تین ماہ میں ماں بننے والی خواتین کی صحت کو لاحق خطرات کے بارے میں تنبیہ کی گئی ہے۔
مذکورہ اداروں نے حکومت کو سردی کے موسم میں سندھ اور بلوچستان کے میدانی علاقوں کے 1کروڑ 60 لاکھ بچوں کی صحت کو لاحق خطرات کے بارے میں بھی متنبہ کیا گیا ہے۔
بین الاقوامی ادارے ورلڈ فوڈ پروگرام کے مطابق سیلاب کے باعث پاکستان کے سیلاب زدہ علاقوں کے تقریباً 7 کروڑ لوگ بے گھر ہوئے ہیں جب کہ پاکستان ریسرچ کونسل اور منسٹری آف نیشنل فوڈ سیکیورٹی اینڈ ریسرچ کے مطابق تباہ کن سیلاب کے باعث تقریباً 4 کروڑ لوگ خوراک کی قلت کا سامنا کر رہے ہیں۔
رواں برس میں مون سون سیزن کے دوران ہونے والی غیر معمولی بارشوں نے ملک کو تاریخ کی بدترین تباہی سے دوچار کیا۔ سیلاب کے نتیجے میں فصلوں، گھروں، معاشی ذرائع، جانوروں کو غیر معمولی نقصان پہنچا۔
قدرتی آفات صنف کے امتیاز کے بغیر سب کو متاثر کرتی ہیں تاہم خواتین پر ان کے اثرات دیرپا اور زیادہ ہوتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق جب قدرتی آفات خواتین اور بچوں پر اثرانداز ہوتی تو اموات کا تناسب کا خدشہ مردوں کی نسبت 14 فیصد بڑھ جاتا ہے۔
اقوام متحدہ کے مطابق 70 فیصد خواتین کو قدرتی آفات میں مختلف اقسام کے امتیازی رویوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، قدرتی آفات کے دوران خواتین اور لڑکیاں مردوں اور لڑکیوں کی نسبت زیادہ متاثر ہوتی ہیں۔
ریسکیو اور ریلیف کے دوران بھی خواتین اور لڑکیوں کو کم ترجیح دی جاتی ہے، جب قدرتی آفت گزر جاتی ہے اور نام نہاد بحالی کا کام شروع ہوتا ہے تو خواتین مزید متاثر ہوتی ہیں۔ اُن پر کام کا بوجھ مزید بڑھ جاتا ہے اور ان کی رسائی صحت اور تعلیم کی سہولیات تک مزید کم ہو جاتی ہیں۔ انہیں بحالی کے دوران نوکری کی سہولیات تک بھی کم رسائی دی جاتی ہے اور اُن کی تنخواہیں بھی انتہائی کم رکھی جاتی ہیں۔
سیلاب نے پاکستان کے وسیع علاقے کو متاثر کیا ہے اور تقریباً 650,000 حاملہ خواتین جن میں سے 73000 اگلے ماہ ماں بن جائیں گی شدید متاثر ہوئی ہیں۔ یو این ایف پی اے کے مطابق ان خواتین کو صحت کی سہولیات تک رسائی حاصل نہیں جو نومولود کی صحت کے لیے انتہائی ضروری ہیں۔
موسمیاتی تبدیلیوں نے بھی پاکستان میں ماں اور نومولود کی صحت پر منفی اثرات مرتب کیے ہیں، موسمیاتی تبدیلیاں مجموعی طور پر خواتین پر اثرات انداز ہوئی ہیں تاہم حاملہ خواتین اس سے سب سے زیادہ متاثر ہوئی ہیں۔
سیلاب نے پاکستان کے صحت کے مراکز کو تباہ کر دیا اور صرف صوبہ سندھ میں 1000 سے زیادہ مراکز صحت سیلاب سے متاثر ہوئے ہیں۔
بلوچستان میں سیلاب کے باعث 193 صحت کے مراکز تباہ ہوئے جب کہ سڑکیں اور مواصلات کا نظام بھی بری طرح متاثر ہوا، ان رکاوٹوں سے حاملہ خواتین کی صحت بھی متاثر ہوئے۔ بحالی کے دوران پاکستانی اور بین الاقوامی اداروں کو حاملہ خواتین کی ضروریات کو بھی مدِنظر رکھنا چاہیے۔