پوتن کی دوستی کیا چین کے لیے ‘مہنگی’ ثابت ہو رہی ہے؟

ازبکستان کے شہر سمرقند میں جمعرات کو چینی صدر شی جن پنگ اور روس کے صدر ولادیمیر پوتن کے درمیان ہونے والی ملاقات نے دنیا بھر کی توجہ مبذول کرائی ہے۔

روس یوکرین جنگ کے آغاز کے بعد یہ پہلا موقع تھا جب دونوں رہنما ایک دوسرے سے ملے۔ لیکن جس انداز میں یہ ملاقات ہوئی اور اس دوران جو کچھ باتیں ہوئیں وہ دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات میں کسی نہ کسی طرح کے کھچاؤ کی نشاندہی کر رہی ہیں۔

یوکرین کی جنگ سے عین قبل روسی صدر پوتن سرمائی اولمپکس میں شرکت کے لیے چین پہنچے جہاں دونوں ممالک نے اعلان کیا کہ ان کی دوستی کی کوئی حد نہیں۔ اس وقت پوری دنیا میں اسے بہت سنجیدگی سے لیا گیا تھا۔

اس بیان کے چند روز بعد روس اور یوکرین کے درمیان جنگ چھڑ گئی جس نے روس کے لیے سنگین اقتصادی اور سفارتی چیلنجز پیدا کر دیے۔

لیکن کیا یوکرین کی جنگ نے دونوں ممالک کے درمیان ‘گہرے تعلقات’ کو متاثر کیا ہے؟

کرغستان کے صدر سے ماسک کے ساتھ شی جنپنگ کی ملاقات

روس اور چین کی دوستی کی حدیں

کورونا کی عالمی وبا شروع ہونے کے تقریباً ڈھائی سال بعد پہلی بار چین سے باہر آنے والے صدر شی جن پنگ نے روسی صدر ولادیمیر پوتن سے ملاقات کی۔ دونوں رہنماؤں نے ایک وسیع کمرے میں ایک بڑی میز پر ملاقات کی جس کے ایک طرف پوتن اور دوسری طرف شی جن پنگ تھے۔

شی جن پنگ کو کووڈ کی سخت پالیسیوں کی وجہ سے گھر میں تنقید کا سامنا ہے لیکن انھوں نے اس میٹنگ کے دوران ماسک نہیں پہنا تھا۔

تاہم، انھوں نے کرغزستان، تاجکستان اور قزاقستان کے رہنماؤں سے ملاقات کے دوران ماسک پہنا۔ یہی نہیں، انھوں نے ماسک نہ پہننے والے لیڈروں کے ساتھ ڈنر سے بھی خود کو دور رکھا۔

بین الاقوامی امور کی ماہر کلارا فریرا مارکیز بلومبرگ میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں لکھتی ہیں کہ ’رواں سال کے شروع میں روس اور چین کے رہنماؤں نے اعلان کیا تھا کہ ان کی دوستی میں کوئی حد حائل نہیں ہے۔ لیکن چھ ماہ سے کچھ زیادہ عرصہ بعد، ایک مشکل جنگ اور مغرب کی جانب سے سخت پابندیوں کے بعد، دوستی کی کچھ حدیں نظر آ رہی تھیں، ایسا بیان جو جمعرات کو وسطی ایشیا میں پوتن اور شی جن پنگ کی ملاقات کے وقت دوبارہ سامنے نہیں آیا۔‘

یوکرین پر روسی حملے کے بعد سے چین ایک غیر آرامدہ حالت میں ہے کیونکہ اسے روس کے ساتھ اپنی نظریاتی مصروفیات کو ایک ایسے وقت میں متوازن کرنا ہے جب پوتن کی جارحیت چینی سفارت کاری، علاقائی سالمیت اور عدم مداخلت کے کلیدی اصولوں کی خلاف ورزی کرتی ہے۔

اس ملاقات میں شی جن پنگ کی جانب سے یوکرین جنگ کا ذکر نہ کرنا بھی بہت اہم سمجھا جا رہا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ پوتن کو وہ سب کچھ نہیں ملا جس کی روس کو ضرورت تھی۔

مثال کے طور پر یوکرین میں گذشتہ کئی مہینوں سے سخت اقتصادی پابندیوں اور بدلتے ہوئے حالات کا سامنا کرنے والے پوتن برآمدات میں اضافہ کر کے چین سے مالی مدد کے خواہاں تھے۔

کلارا مارکیز لکھتی ہیں کہ ’شی جن پنگ نے یوکرین کا ذکر نہیں کیا اور کہا کہ وہ روس کے ساتھ ‘انتشار سے دوچار دنیا میں استحکام اور مثبت توانائی لانے کے لیے’ کام کریں گے۔

انھوں نے مزید عملی تعاون کا وعدہ بھی کیا۔ لیکن ان کے ‘پرانے دوست’ جو فی الحال برآمدی محصول، ٹیکنالوجی کی درآمدات اور فوجی امداد کی تلاش میں ہیں، انھیں کچھ بھی نہیں دیا جو وہ اپنے ساتھ گھر لے جا سکتے تھے۔’

چینی صدر شی جنپنگ اور روسی صدر پوتن

شی جن پنگ کے چیلنجز

چین اور اس کے سرکردہ رہنما بھی ایسے اشارے دے رہے ہیں کہ وہ یوکرین کی جنگ کے بعد پوتن کے ساتھ زیادہ قریب کھڑے دیکھے جانا نہیں چاہتے۔

ان تعلقات میں درپیش چیلنجز کو بیان کرتے ہوئے مارکیز لکھتی ہیں کہ ’یہ بھی شی جن پنگ کے لیے ایک چیلنج ہے کہ وہ یوکرین کی جنگ میں پوتن کو ہارتے ہوئے دیکھیں۔ وہ نہیں چاہتے کہ پوتن اس جنگ میں ہاریں کیونکہ چینی کمیونسٹ پارٹی کی کانگریس چند ہفتے ہی دور ہے۔ اس میں شی جن پنگ تیسری بار چین کی اعلیٰ ترین کرسی حاصل کرنے جا رہے ہیں۔ ایسے وقت میں وہ خود کو ناکامی کے قریب نہیں پانا چاہیں گے کیونکہ جن پنگ کو چین میں پہلے ہی بہت سے اندرونی چیلنجز کا سامنا ہے۔‘

واضح رہے کہ شی جن پنگ کو پہلے ہی چین میں اقتصادی محاذ سے لے کر زیرو کووڈ کی پالیسی پر تنقید کا سامنا ہے۔ سخت کووڈ لاک ڈاؤن کی وجہ سے صنعتوں اور صارفین پر شدید اثر پڑا ہے۔ چین کی پراپرٹی مارکیٹ سخت متاثر ہوئی ہے، بہت سے ہاؤسنگ پراجیکٹس کا کام رک گیا ہے اور لوگ نامکمل گھروں میں رہنے پر مجبور ہیں۔

اس کے ساتھ لوگوں نے اپنی ای ایم آئی (ماہانہ قسط) کی ادائیگی بند کر دی ہے۔ اس کے بعد دنیا کی دوسری بڑی معیشت چین نے پیر کو ہوم لون کی شرح سود میں تاریخی کمی کی ہے۔

چین کے مرکزی بینک نے ایک سال کے قرضوں کی شرح سود 3.7 فیصد سے کم کر کے 3.65 فیصد کر دی ہے۔

پوتن

کیا چین روس کے ساتھ گہری دوستی سے گریز کرتا ہے؟

خبر رساں ادارے روئٹرز نے اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ ’چین کو یوکرین جنگ کے باعث عالمی معیشت پر پڑنے والے اثرات پر بھی تشویش ہے اور اس نے احتیاط سے روس کی براہ راست مدد کرنے سے گریز کیا ہے تاکہ اس کی معیشت کو مدد مل سکے۔‘

چین کے سرکاری اخبار گلوبل ٹائمز نے بھی اس ملاقات پر شائع ہونے والے ایک مضمون میں یہ اشارہ کیا ہے کہ چین روس کے ساتھ دوستی برقرار رکھتے ہوئے زیادہ قریب کھڑا نظر نہیں آنا چاہتا۔

اکیڈمی آف سوشیالوجی آف چائنا سے وابستہ روس، مشرقی یورپ اور وسطی ایشیائی امور کے ماہر، ین جن نے اس مضمون میں کہا ہے کہ اس وقت چین اور روس کے تعلقات تاریخی اعتبار سے بہترین ہیں۔

لیکن اسی مضمون میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ‘روس کے علاوہ مغربی دنیا میں چین کے بہت سے دوست ہیں اور چین کو چاہیے کہ وہ مغربی دنیا کو چین اور روس کو سیاسی اور فوجی بلاک کے طور پر پیش کرنے والے پروپیگنڈا سے باز رکھے۔‘

پوتن اور شی جنپنگ

سمرقند میں شی جن پنگ کے ساتھ ملاقات میں ولادیمیر پوتن نے دونوں ممالک کی دوستی اور سٹریٹجک شراکت داری کی تعریف کی ہے۔

لیکن اس ملاقات میں انھوں نے یوکرین جنگ پر چینی خدشات کا جواب دیا۔

انھوں نے کہا کہ ’ہم اس معاملے پر آپ کے خدشات اور سوالات کو سمجھتے ہیں۔ آج کی میٹنگ میں ہم اپنا موقف بیان کریں گے۔ لیکن ہم اس کے بارے میں پہلے بھی بات کر چکے ہیں۔‘

بی بی سی کی روسی سروس کے ایڈیٹر سٹیو روزنبرگ نے اپنے مضمون میں کہا کہ ’پوتن نے اجلاس میں تسلیم کیا کہ چین نے یوکرین کی صورتحال پر ’سوالات اور خدشات‘ کا اظہار کیا ہے۔ یہ کریملن (روسی حکومت) کی طرف سے ایک غیر متوقع اعتراف تھا کہ روس کا نام نہاد خصوصی فوجی آپریشن چین کے لیے تشویش کا باعث بنتا جا رہا ہے۔‘

اپنا تبصرہ بھیجیں