پاکستان کو موسمیاتی تبدیلی سے لاحق خطرات سفارتکاری کا محور کیوں نہ بن سکے؟

سنہ 2010 کے شدید سیلاب کے فوری بعد پاکستان کی حکومت اور فوج نے مغربی دارالحکومتوں سے معلومات حاصل کرنا شروع کیں جو پاکستان کے سرکاری حکام کو اپنی سائنس کی بنیاد پر لگائی گئی اُن پیشگوئیوں سے متعلق آگاہ کر رہے تھے جس میں ’بہت جلد‘ پاکستان میں ماضی سے زیادہ تباہ کن سیلابی صورتحال کے بارے میں خدشات کا اظہار کیا گیا تھا۔

یہ پیشگوئیاں سائنسی اعداد و شمار پر مبنی تھیں کیونکہ پاکستانی علاقہ دو موسمی نظاموں کے سنگم پر واقع ہے۔

تازہ ترین سیلاب کے بارے میں بھی سائنسی برادری متفق ہے کہ ’پاکستان دنیا کے ایک ایسے مقام پر واقع ہے جہاں دو بڑے موسمی نظاموں کے اثرات برداشت کرنا پڑ رہے ہیں۔ ایک نطام زیادہ درجہ حرارت اور خشک سالی جیسے مارچ میں گرمی کی لہر کا سبب بن سکتا ہے اور دوسرا مون سون کی بارشیں لے کر آتا ہے۔‘

لیفٹیننٹ جنرل (ر) نعیم خالد لودھی جو 2010 کے سیلاب کے فوراً بعد سیکریٹری دفاع کے طور پر فرائض انجام دے رہے تھے انھوں نے یاد دلایا کہ یہ مسئلہ اس وقت اعلیٰ سطح کے اجلاس میں عمومی طور پر زیرِ بحث آتا رہا۔

’ہم مختلف ذرائع سے سُن رہے تھے کہ بنیادی طور پر موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے پاکستان میں زیادہ تباہ کن سیلاب آنے کا خدشہ ہے۔‘

لیفٹیننٹ جنرل (ر) لودھی نے بی بی سی کو بتایا ’ہم نے موقع بھی گنوا دیا اور خطرے کو بھی نظر انداز کر دیا۔ دس سال کے درمیانی عرصے میں ہم نے اس چیلنج سے نبرد آزما ہونے کے لیے کچھ نہیں کیا جس کی جانب عالمی برادری نے ہماری توجہ مبذول کروائی تھی۔‘

نعیم خالد لودھی نے کہا کہ اقتدار کی راہداریوں میں یہ احساس پنپتا جا رہا تھا کہ موسمیاتی تبدیلی اور اس سے پیدا ہونے والی ماحولیاتی آفت پاکستان کے لیے مستقبل میں سکیورٹی خطرہ بن جائے گی۔

انھوں نےکہا ’شاید کہ ہمارے پاس اب بھی وقت ہو کہ ہم اپنی ترجیحات پر ازسر نو غور کریں اور موسمیاتی تبدیلی کو ایک بنیادی سکیورٹی خطرہ قرار دے دیں۔‘

لیفٹیننٹ جنرل (ر) لودھی نے ممکنہ طور پر موسمیاتی تبدیلی کو اوّلین قومی سلامتی ترجیح شمار کرنے کے حوالے سے کہا کہ دفتر خارجہ سمیت قومی اداروں کو اپنی سمت تبدیل کرنے کے لیے قائل کرنے کی قومی کاوش کی جانی چاہیے۔

’پاکستانی فوج کی افرادی قوت کو ڈیموں کی تعمیر، آبی گزرگاہوں اور آبی ذخائر کی صفائی اور دیگر تمام متعلقہ کوششوں کے لیے بروئے کار لایا جانا چاہیے اور دوسری بات یہ کہ دفتر خارجہ کو اس بات پر قائل کیا جائے کہ موسمیاتی تبدیلی اور پاکستان کی سلامتی کے لیے خطرے کا باعث بننے والے اس مظہر کو بین الاقوامی سطح پر ہماری عوامی سفارتکاری کا بڑا مسئلہ شمار کیا جانا چاہیے۔‘

پاکستان سیلاب

،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES

پاکستان کے علاقوں خیبرپختونخوا، سندھ، پنجاب اور بلوچستان میں مون سون کی شدید بارشوں کے باعث جولائی 2010 کے آخر میں سیلاب آیا تھا جس نےدریائے سندھ کے طاس کو متاثر کیا۔ پاکستان کے کل رقبے کا تقریباً پانچواں حصہ سیلاب سے متاثر ہوا جس میں صوبہ خیبر پختونخوا کو بھاری جانی و مالی نقصانات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

اس سیلاب کے باعث ملک بھر میں 1985 اموات ہوئیں۔ حکومت پاکستان کے اعداد و شمار کے مطابق سیلاب سے زیادہ تر املاک، روزگار اور بنیادی ڈھانچے کی تباہی سے تقریباً دو کروڑ افراد براہ راست متاثر ہوئے تھے۔

حالیہ سیلاب نے سنہ 2010 میں آنے والے سیلاب سے زیادہ تباہی مچائی ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق تین کروڑ 30 لاکھ سے زیادہ لوگوں کو بے گھر ہو چکے ہیں جبکہ متاثرہ علاقوں میں پانی سے جنم لینے والی بیماریوں کے پھیلاؤ اور صحت کے دیگر چیلنجز کا سامنا ہے۔

پاکستان عالمی حدت کا ’گراؤنڈ زیرو‘

وفاقی وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی شیری رحمان نے ذرائع ابلاغ سے بات چیت کرتے ہوئے پاکستان کو عالمی حدت کا ’گراؤنڈ زیرو‘ قرار دیا۔

انھوں نے کہا کہ پاکستان جیسے ممالک کو زد میں لینے والی موسمیاتی تباہ کاریوں کی تیز رفتار اور ہولناک نوعیت کے پیش نظر مضر صحت گیسوں کے عالمی اخراج کے اہداف اور تلافی پر ازسر نو غور کیا جانا چاہیے۔

شیری رحمان سابق صحافی، سینیٹر اور سفارت کار ہیں اور اس سے پہلے امریکہ میں پاکستان کی سفیر رہ چکی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ’عالمی حدت دنیا کے وجود کو درپیش ایک بحران ہے اور پاکستان کو گراؤنڈ زیرو کی حالت درپیش ہے حالانکہ (گرین ہاؤس گیس) کے اخراج کے ضمن میں ہمارا حصہ ایک فیصد سے بھی کم ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ کثیرالجہتی فورمز میں کیے گئے وعدوں کو پورا نہیں کیا گیا۔‘

انھوں نے کہا ’دنیا کے کاربن اثرات میں اتنا کم حصہ ڈالنے والے ممالک کی بہت کم تلافی کے ساتھ بہت زیادہ نقصان اٹھانا پڑا ہے جس سے ظاہر ہے کہ عالمی شمال اور عالمی جنوب کے درمیان طے شدہ گفت و شنید کام نہیں کر رہی ہے۔ ہمیں اہداف کو از سر نو مرتب کرنے کے لیے بہت سخت دباؤ ڈالنے کی ضرورت ہے کیونکہ موسمیاتی تبدیلی کی رفتار پیشگوئی سے کہیں زیادہ تیز ہے، یہ بہت واضح ہے۔‘

پاکستان سیلاب

،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES

’پاکستان کو موسمیاتی تبدیلی سے لاحق خطرات پر توجہ نہیں دی گئی‘

ماہرین کا کہنا ہے کہ مذکورہ دونوں سیلابوں کے درمیانی دس سالہ عرصہ کے دوران پاکستانی سفارت کاری روایتی عسکری سکیورٹی، آئی ایم ایف قرضوں، افغانستان کی صورتحال اور امریکہ اور انڈیا کے ساتھ تعلقات جیسے اُمور پر مرکوز رہی۔

پاکستان کی حکومت یا دفتر خارجہ نے گذشتہ دس برسوں کے دوران ایک بار بھی موسمیاتی تبدیلی اور پاکستان کی سلامتی کو اس سے لاحق خطرہ کو ملک کی سفارتکاری کا مرکز و محور نہیں بنایا۔

ماحولیاتی تبدیلی کے مسئلے پر بین الاقوامی فورمز میں چین جو عالمی سطح پر 27 فیصد حصہ کے ساتھ گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کا ایک بڑا محرک اور ماخذ ہے، کے ساتھ ساتھ نتھی رہتے ہوئے پاکستانی سفارت کاری کی نمایاں سرگرمی رہی۔

سفیر عبدالباسط ایک تجربہ کار سابق سفارت کار ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ ’اس غیرفعالیت کی وجوہات عیاں ہیں۔ بین الاقوامی سطح پر پاکستان کا مقدمہ پیش کرنے کے لیے ہمارے پاس موسمیات سے متعلق سفارت کاری یا عوامی سفارت کاری کی استعداد نہیں ہے۔‘

سفیر عبدالباسط نے کہا کہ پاکستان کا مقدمہ بین الاقوامی سطح پر پیش کرنے کے لیے وزارت موسمیاتی تبدیلی کے لوگوں میں بمشکل ہی ایسی سفارتکاری کی کوئی استعداد ہے۔

پاکستان سیلاب

،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES

’ہم نے ان مسائل پر دفتر خارجہ میں کچھ مہارت پیدا کی ہے۔ گذشتہ دو دہائیوں کے دوران تین سے چار ماہرین تیار کیے گئے، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ جب ہمارے سفارت کار ماہر بن جاتے ہیں تو وہ یا تو اقوام متحدہ یا کسی بین الاقوامی این جی او میں شمولیت اختیار کر لیتے ہیں۔‘

کیا کاربن کے اخراج کے خلاف سفارت کاری چین کی مخالفت کے مترداف ہے؟

پاکستان کا عالمی کاربن اخراج میں حصہ ایک فیصد سے بھی کم ہے لیکن ماہرین سمجھتے ہیں کہ یہ موسمیاتی آفات کے سامنے کھڑا ہے۔

وزیر اعظم شہباز شریف اور وزیر موسمیاتی تبدیلی شیری رحمان نے سیلاب سے ہونے والی حالیہ تباہ کاریوں کے تناظر میں غیر ملکی ذرائع ابلاغ سے بات چیت میں بھی اس حقیقت کا اعادہ کیا حالانکہ یہ ایسی کوئی حقیقت نہیں جو پاکستانی حکومت کو ابھی معلوم ہوئی ہے۔

عالمی برادری 2010 کے سیلاب کے فوری بعد پاکستان کی حکومت اور مقتدر حلقوں کو اس بارے میں آگاہ کر رہی تھی، لیفٹیننٹ جنرل (ر) نعیم خالد لودھی نے کہا ’ہمیں دس سال پہلے اس ضمن میں معلومات مل رہی تھیں۔‘

پاکستان کی سفارتی عدم سرگرمی کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ کاربن کا اخراج کرنے والے ممالک کے خلاف کوئی بھی جارحانہ سفارت کاری پاکستان کو براہ راست اس کے سیاسی اور سٹریٹیجک شراکت دار عوامی جمہوریہ چین کی (دوسری) غلط جانب کھڑا کر دے گی جو کاربن کا اخراج کرنے والے ممالک میں سرفہرست ہے۔

ان مسائل پر پاکستان کی سفارتی عدم فعالیت ایک اور تناظر میں بھی عجب ہے۔ سفارتی مبصرین کا کہنا ہے کہ اگرچہ پاکستان انڈیا کے رویے کو عالمی سطح پر اور اندرون ملک انڈین تناظر میں تنقید کا نشانہ بنانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا مگر پاکستانی دفتر خارجہ نے اس حقیقت پر کبھی ایک لفظ بھی نہیں بولا کہ انڈیا دنیا میں سب سے زیادہ آلودگی پھیلانے والے ممالک میں سے ایک ہے۔

پاکستان سیلاب

،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES

اس کے برعکس پاکستان کی صنعت کاری کی سطح کم ہے اور اس وجہ سے کاربن اخراج کی سطح بھی نیچے ہے۔ اس کے اپنے نقطہ نظر سے موسمیاتی تبدیلی پر اس کی جارحانہ سفارت کاری بالکل محفوظ ہوتی۔

تاہم سفیر عبدالباسط اس رائے سے اتفاق نہیں کرتے۔ ان کی اپنی رائے یہ ہے کہ چین ہماری سفارتی عدم فعالیت کا عنصر نہیں ہے۔ سفیر عبدالباسط نے کہا ’ہمارے ملک کے اندر موجود سیاسی ماحول ایسی سفارت کاری کے لیے سازگار نہیں ہے اور ہمارے پاس ایسی جارحانہ اور فعال سفارت کاری کے لیے فکر و دانش کی استعداد بھی نہیں اور نہ ہی درکار وسائل ہیں۔‘

سیاسی سطح پر ماہرین کے مطابق پاکستانی حکومت اور طاقت کے دیگر مراکز قائل ہیں کہ موسمیاتی تبدیلی ایک ایسا مسئلہ ہے جس کے بارے میں پاکستان کو سنجیدہ ہونا چاہیے۔

عبد الباسط نے کہا ’مسئلہ یہ نہیں ہے کہ ہم مغرب کی اس بات سے متفق نہیں ہیں کہ موسمیاتی تبدیلی ایک سنگین مسئلہ ہے، مسئلہ یہ ہے کہ ہم اور چین سمجھتے ہیں کہ ترقی پذیر ممالک اتنی تیزی سے قابل تجدید توانائی کی جانب منتقلی کا وعدہ نہیں کر سکتے جتنی تیزی سے ترقی یافتہ دنیا منتقل ہو سکتی ہے۔‘

انھوں نےکہا ’اس کے علاوہ ترقی پذیر ممالک میں قابل تجدید توانائی کے لیے بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کے لیےترقی یافتہ دنیا کے 100 ارب ڈالر کی امداد دینے کے وعدے کا کیا ہوا۔‘

یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ پاکستان اس طرح کی بحث و تکرار میں الجھنے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ موسمیاتی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں اور بین الاقوامی سائنسی برادری پیش گوئی کر رہی ہے کہ عالمی حدت کی روک تھام کے لیے دنیا کے پاس گیارہ سال کا موقع دستیاب ہے۔

اور یہ کہ پاکستان پھر بھی موسمیاتی آفت کے سامنے ہو گا اور مغربی صنعتوں کے سبب موسمیاتی تبدیلیاں رونما ہونے کا استدلال اور بحثیں ہمارے لیے عبث ہوں گی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں