لاپتا افراد کی بازیابی کیلئے عدالت نے حکومت کو 2 ماہ کی مہلت دیدی

لاپتا افراد کے کیس کی سماعت کے دوران جسٹس اطہر من اللہ نے وزیراعظم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم صاحب مسنگ پرسنز ایک بہت بڑا ایشو ہے، ریاست کا وہ ردعمل نہیں آ رہا جو ریاست کی ذمہ داری ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ میں آج بروز جمعہ 9 ستمبر کو مدثر نارو اور دیگر لاپتا افراد کی بازیابی سے متعلق کیسز میں متفرق درخواستوں کی سماعت ہوئی۔ چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے کیس کی سماعت کی۔

اس موقع پر وزیراعظم بھی مریم اورنگزیب اور وزیر قانون اعظم نذر تارڑ کے ہمراہ عدالت میں پیش ہوئے۔

وزیراعظم کی عدالت آمد کے پیش نظر سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے تھے، جب کہ خاردار تاریں اور بیرئیرز لگا کر اطراف کی سڑکیں بند کردی گئیں۔

کمرہ عدالت میں غیر متعلقہ افراد کا داخلہ بھی بند رہا،میڈیا نمائندوں کو بھی عدالت میں جانے سے روکا گیا۔ وزیراعظم کا سیکیورٹی اسٹاف بھی اسلام آباد ہائیکورٹ میں موجود رہا۔

عدالتی کمرے میں لاپتا صحافی مدثر ناروکا بیٹے بھی موجود ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف نے کمرہ عدالت میں مدثر نارو کے بیٹے کو دلاسہ دیا۔ کیس کی سماعت کے موقع پر لاپتا افراد کے لواحقین اور آمنہ مسعود جنجوعہ بھی موجود ہیں۔

کاز لسٹ منسوخ

سماعت کے آغاز سے قبل عدالتی عملے نے بتایا کہ چیف جسٹس کی عدالت میں آج صرف لاپتا افراد کیس کی سماعت ہوگی اور دیگر کیسز کی کاز لسٹ منسوخ کردی گئی۔

وزیراعظم روسٹرم پر آ گئے

سماعت کے آغاز میں وزیراعظم ، اٹارنی جنرل اور وزیر قانون روسٹرم پر آئے تو چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ اس وقت سیلابی صورت حال میں کام کر رہے ہیں، عدالت سراہتی ہے کہ آپ اس معاملے کی سنگینی کو سمجھتے ہوئے عدالت آئے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ لاپتا افراد کا معاملہ بہت پیچیدہ صورت حال ہے، بدقسمتی سے ایک 9 سال چیف ایگزیکٹو رہنے والے نے فخریہ لکھا ہے کہ لوگوں کو اٹھا کر بیرون ملک بھیج دیتے ہیں، اس بات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ریاست کی پالیسی ہے، آپ نے کمیٹی تشکیل دی جس پر عدالت آپ کی مشکور ہے۔

عدالت کا یہ بھی کہنا تھا کہ لاپتا افراد کے اہل خانہ جس تکلیف سے گزرتے ہیں اس کا کسی کو اندازہ نہیں، لاپتا افراد احتجاج کرتے رہے لیکن وفاقی حکومت نے ان کی اواز نہ سنی، ہم لاپتا افراد کے مسئلے کا حلا چاہتے ہیں اس لیے آج اپ کو تکلیف دی ، جب ہمارے سامنے کہا جاتا ہے کہ ہمیں نہیں پتا کہ لاپتا افراد کو کون اٹھا کر لے گیا۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ اس ریاست کا ایک آئین ہے، اس ملک میں آئین کے مطابق سول سپرمیسی ہونی چاہیے، اس عدالت نے یہ معاملہ کئی بار کابینہ کو بھیجا لیکن کچھ نہیں ہوا، آپ کو معاملہ بھیجا تو آپ نے اس پر اچھا اقدام اٹھایا ایک کمیٹی بنائی، یہ عدالت سمجھتی ہے کہ کمیٹیاں بنانے سے کچھ نہیں ہوگا۔

چیف جسٹس نے مزید کہا کہ اس عدالت میں بلوچ طلبہ کے تحفظات سامنے آرہے ہیں، ایسا تاثر نہیں ہونا چاہیے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے شہریوں کو اٹھائیں، یہ تاثر ہماری نیشنل سیکیورٹی کو متاثر کرتا ہے، سیاسی قیادت نے اس مسئلہ کو حل کرنا ہے، لوگوں کو لاپتا کرنا ٹارچر کی سب سے بڑی قسم ہے، عدالت کے پاس کوئی اور راستہ نہیں کہ صرف ایگزیکٹو سے پوچھے، آپ سیلاب متاثرین کے لیے کام کر رہے ہیں اور اس ایشو کو سمجھتے ہوئے عدالت آئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ جبری گمشدگیاں آئین سے انحراف ہیں، اس ملک کی نیشنل سیکورٹی آپ وزیراعظم ہیں آپکے ہاتھ میں ہے، اس عدالت کا آپ پر اعتماد ہے، آپ اس کا حل بتا دیں، ایک چھوٹا بچہ ادھر آتا ہے اس کو یہ عدالت کیا جواب دے، اس وقت کے وزیراعظم سے بھی بچہ کی ملاقات ہوئی، یہ عدالت جبری گمشدگیاں کا ذمہ دار کس کو ٹھہرائے، اس پر شہباز شریف نے جواب دیا کہ یہ سب میری ڈیوٹی ہے۔

چیف جسٹس نے وزیراعظم سے مکالمہ کرتے ہوئے مزید کہا کہ گورننس کے بہت مسائل ہیں اور وہ تب ہی ختم ہوں گے جب آئین بحال ہو گا، زیادہ تر قانون نافذ کرنے والے ادارے وزارت داخلہ کے ماتحت ہیں۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ چاہیے تو یہ تھا کہ مسنگ پرسنز کے لواحقین کو اس عدالت نہ آنا پڑتا، بلوچ طلبہ کے جو مسائل عدالت کے سامنے آ رہے ہیں وہ بہت تکلیف دہ ہیں، نیشنل سیکیورٹی کے تمام معاملات سولین چیف ایگزیکٹو کی طرف سے دیکھے جانے چاہئیں، فورسز کی جانب سے لوگوں کو اٹھائے جانے کا تاثر بھی ملک کیلئے نقصان دہ ہے، یہ آئینی عدالت ہے ریاست آ کر کہتی ہے کہ ہمیں نہیں پتا شہری کہاں ہے، پھر اس عدالت کے پاس آئین کے تحت فیصلہ دینے کا آپشن موجود ہوتا ہے۔

چیف جسٹس نے وزیراعظم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ یا تو آپ کو کہنا پڑیگا کہ اس ملک میں آئین مکمل طور پر نافذ نہیں، اگر یہ بات ہے تو پھر یہ عدالت کسی اور سے پوچھے گی، پھر بھی ذمہ داری چیف ایگزیکٹو کی ہی ہوتی ہے، گورننس کے بہت مسائل ہیں اور وہ تبھی ختم ہونگے جب آئین بحال ہوگا، زیادہ تر قانون نافذ کرنے والے ادارے وزارت داخلہ کے ماتحت ہیں، اس عدالت کو آپ پر اعتماد ہے لیکن کوئی حل بتا دیں، جب وہ چھوٹا بچہ اس عدالت آتا ہے تو یہ عدالت اس کو کیا کہے؟ پہلے بھی اس عدالت نے اِس بچے کو وزیراعظم کے پاس بھیجا تھا۔

وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ سیلاب نے پاکستان کو بری طرح متاثر کیا ہے، میری بہت اہم مصروفیات تھیں لیکن اس عدالت کے حکم سے زیادہ اہم نہیں۔

شہباز شریف نے جواب دیا کہ آپ نے بہت اہم آبزرویشنز دی ہیں، میں کوئی عذر پیش نہیں کروں گا، بچہ نے کہا وزیراعظم میرے ابو کو مجھ سے ملا دیں، یہ جملہ میرے لیے بہت تکلیف دہ ہے، میں یقین دلاتا ہوں میں پوری کوشش کروں گا، میں اس ملک کی عدالتوں کو جوابدہ ہوں، مجھے جا کر اپنے رب کو بھی جواب دینا ہے، میں یہاں الزام تراشی والی گیم کھیلنے نہیں آیا۔

وزیر اعظم نے مزید کہا کہ ہم نے ایک کابینہ کمیٹی تشکیل دی ہے اور اس کی 6 میٹنگز ہو چکی ہیں، میں اپنے عوام کو بھی جوابدہ ہوں، ناقابل تردید ثبوت عدالت کے سامنے رکھوں گا، حقائق خود بولتے ہیں، میں بہت سادہ آدمی ہوں اللہ مجھے معاف کرے، لاپتا افراد کمیٹی 6 اجلاس کرچکی، لاپتا افراد کمیٹی کے ہر اجلاس کی نگرانی کروں گا اور عدالت میں رپورٹ پیش کروں گا، رپورٹ کوئی کہانی نہیں ہوگی، بلکہ حقائق پر مبنی ہوگی۔

انہوں نے مزید کہا کہ 4 سالوں میں 2 مرتبہ جیل گیا، میرے اہلخانہ نے بھی اذیت دیکھی، میں نے بطور وزیر اعلی پنجاب اپنا خون پسینہ بہایا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کا وقت بہت قیمتی ہے، ہم آپ کا زیادہ وقت نہیں لینا چاہتے۔

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو ہدایت دی کہ ‘آپ آئین کا آرٹیکل 7 پڑھیں’، اٹارنی جنرل نے آئین کا آرٹیکل 7 پڑھ کر سنایا، جس کے بعد چیف جسٹس نے کہا کہ اب بتائیں لاپتا افراد کا ذمہ دار کون ہے، اسلام آباد سے دو بھائی غائب ہوئے آج تک ان کا پتا نہیں چلا۔

وزیر اعظم شہباز شریف نے جواب دیا کہ لاپتا افراد کیسز میں آپ کو ہمارا رویہ نظر آئے گا۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا کہ کمیٹیاں بنتی رہی یقین دہانی کرائی جاتی رہی لیکن کوئی کام نہیں ہوا۔

مدثر نارو کی والدہ روسٹرم پر آگئیں

دوران سماعت لاپتا صحافی مدثر نارو کی والدہ روسٹرم پر آگئیں اور اپنے بات شروع کرتے ہوئے کہا کہ ان لوگوں نے 2021 میں بھی ہمیں یقین دلایا تھا ہم سیریس ہوںگے۔ اُس کے بعد ان لوگوں نے کچھ نہیں کیا۔ رانا ثنا سے فیصل آباد میں بہت بار مطالبہ کیا کوئی جواب نہیں ملا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ وزیراعظم نے ساڑھے 10بجے سیکریٹری جنرل یو این سے ملنا ہے۔ والدہ نے بات جاری رکھتے ہوئے مزید کہا کہ ہم بچپن میں آرمی کی گاڑی دیکھ کر سلیوٹ کرنے کھڑے ہو جاتے تھے۔ میں چاہتی ہوں ہماری آئندہ نسلوں کے دل میں بھی احترام ہو۔

وزیر اعظم نے یہ بھی کہا کہ میں یہ تو نہیں کہتا سارے لاپتا افراد بازیاب ہوں گے لیکن کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے، ڈکٹیٹر کی پالیسیوں کا میں اور میرا بھائی بھی نشانہ بنا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ سابق سربراہ نے تسلیم کیا کہ شہریوں کو لاپتا کرنا ریاستی پالیسی تھی، آئین کے مطابق کوئی بھی شہری لاپتہ ہو تو ریاست ذمہ دار ہوتی ہے،

وزیراعظم شہباز شریف نے جواب دیا کہ اس چیف ایگزیکٹو کے دور میں ہمیں ملک بدری میں رہنا پڑا، یہ ملک اس شخص کی وجہ سے بہت متاثر ہوا۔

چیف جسٹس کا اپنے ریمارکس میں کہنا تھا کہ شہریوں کو لاپتا کرنا آئین توڑنے کے مترادف ہے، آپ کو اس لیے بلایا کہ ریاست سمجھ سکے کتنا بڑا ایشو ہے۔

وزیر اعظم نے کہا کہ جب میں وزیر اعلیٰ پنجاب تھا تو ہر زبان والے طلبہ کو پنجاب میں داخلے دیے، بلوچ، پشتون، سندھی پنجابی سب طلباء کو دانش اسکولز میں فری داخلے دلوائے، بلوچ، پشتون، سندھی اور پنجابی سارے پاکستانی ہیں۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ یہ عدالت پارلیمنٹ کا بہت احترام کرتی ہے، تمام صوبوں کے چیف ایگزیکٹو بھی ذمہ دار ہیں اگر ان کے علاقے سے کوئی اٹھایا جاتا ہے، اس عدالت کے فیصلے سے پہلے ایگزیکٹو نے اس بات کو یقینی بنانا ہوگی کہ کوئی لاپتہ افراد نہیں ہوں گے۔

اس موقع پر وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ بھی عدالت میں پیش ہوئے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آمنہ مسعود جنجوعہ نے کمیشن کے متعلق بہت کچھ بتایا، کمیشن لاپتا افراد کے لواحقین پر مرہم رکھنے کے بجائے ان کو اذیت دیتے رہے، جنھوں نے آئین کی خلاف ورزی کی ان کے خلاف کارروائی ہونی چائیے، معاملات کو پارلیمنٹ میں لے کر جائیں ان پر قانون سازی کریں، بھارت نے یہی کیا، دیگر ممالک نے یہی کیا۔

انہوں نے کہا کہ لوگوں کو لاپتا کرنا ناقابل برداشت ہے، عدالت چیف ایگزیکٹو کو ذمہ دار ٹھہرائے گی، اس ملک میں کوئی بھی آئین سے بالاتر نہیں، یہ عدالت سول سپریمیسی کی آئین کی منشاء کو یقینی بنائے گی۔

چیف جسٹس نے وزیراعظم سے استفسار کیا کہ جبری گمشدگیوں پر سیکیورٹی کونسل کے ہر رکن کو عدالت ذمہ دار ٹھہرائے؟ لاپتا افراد کے پرانے کیسز پر لواحقین کو مطمئن کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے، آئندہ کسی شخص کو لاپتا نہیں ہونا چاہیے، تلاش کرنا عدالت کا نہیں ریاست کا کام ہے، ریاست کے پاس ایجنسیز ہیں، دیگر ذرائع ہیں، جائیں اور تلاش کریں۔

دوران سماعت وزیر قانون نے کہا کہ 21 سالہ کیس 10 دن میں حل کرنے کا کہنا تو درست بات نہیں ہو گی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ سول بالادستی اور اداروں پر حکومت کا کنٹرول آئین کے مطابق ہونا چاہیے، وفاقی دارالحکومت سے ایک صحافی کو اٹھایا گیا جس کی ویڈیوز موجود ہیں، یہ عدالت کیسے مان لے کہ ریاست اتنی کمزور ہے کہ اس کی تحقیقات نہ کر سکے، ایس ای سی پی کے ایک افسر کو اٹھایا گیا اس نے واپس آ کر کہا کہ شمالی علاقہ جات کی سیر کو گیا تھا۔

اس موقع پر مدثر نارو کی والدہ نے کہا کہ ہم فروری 2019 میں دھرنے پر بیٹھے تھے، رانا ثنا اللہ صاحب ہمارے فیصل آباد کے ہیں ان کو کافی اپیلیں کی ہیں۔

وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ آپ کا پیغام واضح ہے۔

اس دوران وزیر قانون نے عدالت کو توجہ دلاتے ہوئے کہا کہ یو این سیکریٹری جنرل کو وزیراعظم سے ملنے ساڑھے 10 بجے آنا ہے۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ وزیراعظم صاحب آپ کا شکریہ کہ آپ آئے، جبری گمشدگیوں کو ختم کرنا آپ کی ذمہ داری ہے، جبری گمشدگیاں آئین سے انحراف ہیں، بعد ازاں عدالت نے وزیراعظم شہباز شریف کو جانے کی اجازت دے دی، جس کے بعد وزیراعظم روانہ ہوئے تو وزیر قانون نے اپنے دلائل دینا شروع کیے۔

اٹارنی جنرل کے دلائل

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اگر قانون کی خلاف ورزی ہوتی رہی تو ہر حکمران ذمہ دار ہے، یہ عدالت آئین کو دیکھے گی اور اس کے بعد ایک فیصلہ دے گی۔

انہوں نے اٹارنی جنرل اشترت اوصاف کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اگر آپ تیار ہیں تو آج دلائل دیں پھر عدالت ایک فیصلہ دے، ہمارے معاشرے کا المیہ یہ ہے جس کی ذمہ داری ہوتی ہے وہ کہتا ہے میں کیا کر سکتا ہوں، یہ بہانہ بنایا جاتا ہے کہ میرے پاس تو اختیار ہی نہیں اختیار تو کسی اور کے پاس ہے، اگر آپ ذمہ داری نہیں لے سکتے تو پھر اپنا آفس چھوڑ دیں۔

اٹارنی جنرل اشتراوصاف نے جواب دیا کہ دلائل وہاں دیے جاتے ہیں جب اختلاف ہو، میں نے، وزیر قانون اور وزیر داخلہ نے اس معاملے پر بہت سنجیدگی سے مشاورت کی ہے، خدا کی قسم اگر پاکستان نہ ہو تو میں یہاں کھڑا نہ ہوں، میں نے اس عدالت سے جا کر اس عدالت کی بنائی کمیٹی کے ارکان کو فون کر کے بات کی، میں نے اسد عمر کو بھی کال کی، صرف چیئرمین سینیٹ سے رابطہ نہیں ہوا، ان سے ذاتی طور پر ملنے جاؤں گا۔

انہوں نے مزید کہا کہ آپ نے وزیراعظم کی ذمہ داری لگائی ہے، ہم کام کریں گے، آپ ہمیں تھوڑا موقع دیں پھر آپ کو شکایت نہیں ہو گی، اگر ہم ذمہ داری پوری نہ کر سکے تو میں آ کر کہوں گا کہ میں ناکام ہو گیا۔

وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ

اس موقع پر وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ یہ متحدہ حکومت ہے اور حکومت کے اتحادیوں کا یہ اپنا مسئلہ ہے، اس حکومت نے اس لئے ایک کمیٹی تشکیل دی تاکہ معاملے کی گہرائی تک پہنچ سکیں، پرامید ہوں کہ ہم کسی منطقی انجام تک پہنچ جائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں 2 ماہ کا وقت چاہیے، یہ کام 2 دن میں نہیں ہو سکتا، اس عدالت کی نگرانی موجود رہے تو شاید ہم کسی حل کو پہنچ جائیں گے، جب یہ کیس چل رہا ہے تو ہمیں بھی احساس ہے کہ یہاں جواب دینا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ یہ عدالت ایک فیصلہ دینا چاہتی ہے، وہ ان مسائل کے حل میں فائدہ دے گا۔

وزیر قانون نے جواب دیا کہ یہ عدالت سول بالادستی کے بعد سب سے زیادہ تکریم پارلیمنٹ کو دیتی ہے، ورنہ جتنی بے توقیری پارلیمنٹ کی ہوئی کسی ادارے کی نہیں ہوئی، پارلیمنٹ کو تالے لگائے گئے، پارلیمنٹ کے ممبران نے بھی جو اس کے ساتھ کیا وہ سب کے سامنے ہیں، یہاں پر جگہ جگہ بارودی سرنگیں ہیں ان کو بھی مدنظر رکھنا ہے۔

فرحت اللہ بابر

دوران سماعت فرحت اللہ بابر نے کہا کہ پارلیمان نے اپنا کام 2015 میں مکمل کر لیا تھا، پارلیمان کا خیال تھا کہ اس کے پیچھے انٹیلی جنس ایجنسیز ہیں۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا انٹیلی جنس ایجنسیز کس کے ماتحت ہیں؟ کوئی چیف ایگزیکٹو خود کو بے بس ہونے کا بہانہ نہیں بنا سکتا، یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس عدالت میں چیزیں خراب ہو رہی ہیں لیکن رجسٹرار ذمہ دار ہے، اگر آپ یہ جواز دے رہے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ یہاں ریاست کے اندر ریاست ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اگر کوئی جنرل پرویز مشرف کی پالیسی کو جاری رکھے تو یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں مجبور ہوں، اگر کوئی اپنی ذمہ داری پوری نہیں کر سکتا اور سمجھتا ہے کہ وہ مجبور ہے تو وہ اسکا ذمہ دار ہے، اگر چیف ایگزیکٹو کہے کہ انٹیلی جنس ایجنسیاں میرے ماتحت نہیں تو وہ آئین سے انحراف تسلیم کرتا ہے، جو چیف ایگزیکٹو یہ تسلیم کر لے اس کو پھر عہدہ چھوڑ کر گھر جانا چاہیے۔

فرحت اللہ بابر نے کہا کہ پارلیمان نے 2015 میں قانون بنا کر ایگزیکٹو کو بھیج دیا تھا، ایگزیکٹو کا کام تھا اسے نافذ کرتا یا مکالمہ کرتا آ کر کہ کیوں نہیں ہو سکتا، چیف ایگزیکٹو پارلیمان کو ہی جوابدہ ہے، کیا آپ کہہ رہے ہیں کہ پارلیمان عملدرآمد نہیں کروا پائی؟ پارلیمان اتنی مضبوط ہے کہ وہ وزیراعظم کو بھی ہٹا سکتی ہے،عدالت یہ بات کہہ کر پارلیمان کی بےتوقیری نہیں کرنے دے گی۔

وزیر قانون نے کہا کہ حقائق ذرا مختلف ہیں، جو کچھ ہم نے دیکھا اس کو درست کرنے کی ضرورت ہے، ہمیں لگتا ہے کہ مزید قانون سازی کی بھی ضرورت ہے، 2 سے 8 ہفتے کا وقت دیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ کوئی ایسا فورم ان کو بتا دیں جو مسنگ پرسنز کے لواحقین کے لئے ہر وقت دستیاب ہو، یہ ایک دوسرے پر الزامات کا نہیں بلکہ خود احتسابی کا وقت ہے۔

آمنہ مسعود جنجوعہ

دوران سماعت آمنہ مسعود جنجوعہ نے وزیر داخلہ سے چیئرمین لاپتا افراد کمیشن جاوید اقبال کو ہٹانے کی درخواست کرتے ہوئے کہا کہ لاپتا افراد کمیشن میں کوئی جانے کو تیار نہیں، اس کا کچھ کریں۔

انہوں نے مزید کہا کہ حکومت لاپتا افراد کیسز کے فیصلوں کے خلاف اپیلیں واپس لے۔

وزیر قانون نے کہا کہ ہمارے بہت سارے اداروں نے بہت قربانیاں دی ہیں، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ جس وقت کی آپ بات کر رہے ہیں اس وقت پنجاب تو پھر بہتر تھا لیکن خیبرپختونخوا میں روزانہ دھماکے ہوتے تھے۔

وزیر قانون نے جواب دیا کہ کریمنل جسٹس سسٹم میں لا ریفارمز لانے ہیں، ہمیں 8 سے 10 ہفتے دے تاکہ ہم اس پر کام مکمل کرلیں۔

درخواست گزاروں کی اجازت پر عدالت نے وزیر قانون کو 2 ماہ کا وقت دیتے ہوئے کیس کی سماعت 14 نومبر تک ملتوی کردی۔

لاپتا افراد کے اہل خانہ کا احتجاج

قبل ازیں جمعرات 8 ستمبر کو وزیراعظم کی لاپتا افراد کے لیے قائم وفاقی کابینہ کی خصوصی کمیٹی کی یقین دہانی پر لاپتا افراد نے کوئٹہ میں پچاس روز سے جاری دھرنا ختم کردیا ہے۔

کمیٹی سے کامیاب مذاکرات کے بعد لاپتا افراد نے اکیس جولائی سے زرغون روڈ پر ریڈ وزن میں جاری دھرنا ختم کیا۔

وفاقی وزیررانا ثناء اللہ کا کہنا ہے کہ لاپتا افراد کی بازیابی کیلئے تمام فریقین کا تعاون درکار ہے۔ وفاقی وزیر قانون بیرسٹر اعظم نزیر تارڑ، وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ اور شازیہ مری سمیت آٹھ رکنی کمیٹی نے دھرنے میں بیٹھے مظاہرین سے مزاکرات کیے۔

وزیر قانون بیرسٹر اعظم نزیر تارڑ نے کہا کہ وفاقی حکومت خلوص نیت سے لاپتا افراد کا مسئلہ کرنا چاہتی ہے۔

وفاقی کابینہ کی خصوصی کمیٹی نے کوئٹہ میں وزیراعلیٰ بلوچستان اور صوبائی وزراء سے ملاقات کی اور لاپتا افراد سے متعلق اجلاس میں چیف سیکریٹری اور متعلقہ حکام سے بریفنگ لی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں