ایران میں سکول کی طالبات نے حجاب اتار کر مظاہرے کیے

ایران کے مختلف شہروں سے موصول ہونی والی فوٹیج میں ڈرامائی مناظر نظر آئے جہاں ٹین ایجر لڑکیوں نے سر پر پہنے ہوئے سکارف اتار کر قدامت پسند انتظامیہ کے خلاف مظاہرے کیے۔

ایران میں اب غیر معمولی طور پر سکول کی طالبات بھی ان مظاہروں میں شامل ہو گئی ہیں جو حجاب کے قانون کو توڑنے کے الزام میں زیر حراست ایک خاتون کی موت کے بعد سے مختلف شہروں میں ہو رہے ہیں۔

بی بی سی کی طرف سے تصدیق شدہ ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ یونیفارم میں ملبوس نو عمر طالبات علما اور حکام کے خلاف نعرے لگاتے ہوئے اپنے سکارف ہوا میں لہرا رہی ہیں۔

گذشتہ دو ہفتوں سے ملک کے مختلف حصوں میں مظاہرے ہو رہے ہیں۔

پیر کو کرج شہر میں بغیر حجاب کے لڑکیوں نے ایک شخص کو اپنے سکول سے باہر نکال دیا جس کے متعلق شبہ تھا کہ وہ کوئی مقامی سرکاری اہلکار ہے۔

فوٹیج میں وہ چلا رہی ہیں ’شیم آن یو‘ (تمہیں شرم آنی چاہیئے) اور پانی کی خالی بوتلیں بھی اس شخص پر پھینک رہی ہیں۔ وہ شخص بعد میں سکول کے ایک دروازے سے باہر چلا جاتا ہے۔1px transparent line

کرج دارالحکومت تہران کے بالکل مغرب میں واقع ہے۔ وہاں سے آنے والی ایک اور ویڈیو میں طلباء کو چیختے ہوئے دیکھا اور سنا جا سکتا ہے، جس میں وہ کہتی ہیں: ’اگر ہم متحد نہیں ہوئے تو وہ ہمیں ایک ایک کر کے مار دیں گے۔‘

پیر کو جنوبی شہر شیراز میں درجنوں سکول کی طالبات نے ایک مرکزی سڑک پر ٹریفک کو بند کر دیا اور اپنے سروں پر سے سکارف اتار کر انھیں ہوا میں لہراتے ہوئے ’آمر مردہ باد‘ کے نعرے لگائے۔ بظاہر یہ اشارہ سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کی طرف تھا جن کا ریاست کے تمام معاملات پر حتمی کنٹرول ہے۔

منگل کو تہران اور شمال مغربی شہروں سقز اور سنندج میں سکول کی طالبات کے مزید مظاہروں کی اطلاع ملی ہے۔

کئی طلباء نے اپنے کلاس رومز میں سر ڈھانپے بغیر تصویریں کھنچوائیں۔ کچھ اپنی درمیانی انگلی سے آیت اللہ خامنہ ای اور اسلامی جمہوریہ کے بانی آیت اللہ روح اللہ خمینی کی تصویروں کی طرف فحش اشارے کر رہی تھیں۔

سکول کی طالبات کے مظاہرے آیت اللہ خامنہ ای کے، جو تمام ریاستی معاملات پر حتمی رائے رکھتے ہیں، بدامنی پر اپنی خاموشی توڑنے کے بعد شروع ہوئے ہیں، جس میں انھوں نے فسادات کا الزام ایران کے کٹر دشمن امریکہ اور اسرائیل پر لگایا ہے۔

انھوں نے سکیورٹی فورسز کی مکمل حمایت کا بھی اعلان کیا جنھوں نے جواب میں مظاہروں کو روکنے کے لیے پرتشدد کریک ڈاؤن کیا۔

یہ مظاہرے ایک 22 سالہ کرد خاتون مہسا امینی کی موت کے بعد سے شروع ہوئے ہیں جو 13 ستمبر کو تہران میں اخلاقی پولیس کی طرف سے حراست میں لیے جانے کے بعد کومہ میں چلی گئی تھیں۔ ان کو اس لیے حراست میں لیا گیا تھا کیونکہ انھوں نے مبینہ طور پر اس قانون کی خلاف ورزی کی تھی جو خواتین کو حجاب یا سکارف سے اپنے بال ڈھانپنے کا پابند بناتا ہے۔ وہ تین دن بعد ہسپتال میں دم توڑ گئی تھیں۔

ہلاک ہونے والی خاتون کے اہل خانہ نے الزام لگایا ہے کہ افسران نے اس کے سر پر ڈنڈے مارے اور اس کا سر اپنی ایک گاڑی سے ٹکرایا۔ پولیس نے اس بات کی تردید کی ہے کہ اس کے ساتھ بدسلوکی کی گئی ہے اور کہا ہے کہ اس کا ’اچانک ہارٹ فیل‘ ہو گیا تھا۔

پہلا احتجاج کرد آبادی والے شمال مغربی ایران میں ہوا، جہاں کی امینی رہائشی تھیں، اور پھر اس کے بعد تیزی سے پورے ملک میں پھیل گیا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں