حماس انتظامیہ نے غزہ میں 5 فلسطینیوں کو پھانسی دے دی

غزہ کی حکمراں جماعت حماس نے پانچ فلسطینیوں کو پھانسی دے دی، جن میں سے دو پر سال 2009 اور 2015 میں اسرائیل کے لیے جاسوسی کا الزام عائد تھا۔
خبرررساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق سال 2017 کے بعد پہلی مرتبہ فلسطینی علاقوں میں صبح سویرے پھانسی یا فائرنگ اسکواڈ کے ذریعے سزائے موت دی گئی۔
غزہ میں سزائے موت کے ماضی کے واقعات پر انسانی حقوق کی تنظیموں نے تنقید کی ہے۔ غزہ کی وزارت داخلہ کے بیان میں سزا پانے والے کسی شخص کا بھی مکمل نام نہیں بتایا گیا گئے بلکہ کہا گیا تینوں افراد کو قتل کا مجرم قرار دیا گیا تھا۔
بیان میں کہا گیا کہ سزا یافتہ دو جاسوس، جن کی عمریں 44 اور 54 سال تھیں، نے اسرائیل کو ایسی معلومات فراہم کی تھیں جو فلسطینیوں کے قتل کا باعث بنیں۔
اسرائیلی وزیر اعظم کے دفتر، جو ملک کی انٹیلی جنس خدمات کی نگرانی کرتا ہے، نے اس سزا پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔
پھانسی تمام قانونی طریقہ کار کو مکمل کرنے کے بعد عمل میں لائی گئی
بیان میں کہا گیا کہ تمام سزا یافتہ افراد کو اپنے دفاع کے مکمل حقوق ملنے کے بعد حتمی فیصلہ کیا گیا جن پر عمل درآمد لازمی تھا۔
فلسطینی اور انسانی حقوق کے بین الاقوامی گروپوں نے سزائے موت کی مذمت کی ہے اور حماس اور فلسطینی اتھارٹی پر زور دیا ہے کہ وہ اسرائیل کے مقبوضہ مغربی کنارے میں محدود خود مختاری کا استعمال کرتے ہوئے اس عمل کو ختم کریں۔
فلسطینی قانون کے مطابق پھانسی دینے یا نہ دینے کا حتمی اختیار فلسطینی صدر محمود عباس کے پاس ہے لیکن غزہ میں ان کی کوئی مؤثر حکمرانی نہیں ہے۔
یہ بھی پڑھیں:
انسانی حقوق کے گروپوں کے مطابق اسلام پسند حماس نے 2007 میں محمود عباس سے غزہ کا کنٹرول حاصل کرنے کے بعد سے اپنی عدالتوں میں درجنوں فلسطینیوں کو سزائے موت سنائی ہے اور اب تک 27 کو پھانسی دی جاچکی ہے۔