ایران میں ہونے والے مظاہروں میں شدت، پولیس نے 9 یورپی باشندوں کو گرفتار کر لیا

ایران میں پولیس حراست کے دوران مہسا امینی کی ہلاکت پر ملک بھر میں ہونے والے مظاہروں کے دوران بدامنی پھیلانے کے الزام میں ایرانی پولیس نے 9 یورپی باشندوں کو گرفتار کر لیا۔

مہسا امینی کی ہلاکت کے بعد جرمنی، پولینڈ، اٹلی، فرانس، ہالینڈ، سویڈن اور دیگر ممالک کے شہریوں کی گرفتاری کے نتیجے میں ایران اور مغربی ممالک کے درمیان کشیدگی میں اضافے کا خدشه ہے۔

حکام کےمطابق پولیس اسٹیشن پر حملہ کرنے والے مسلح مظاہرین پر سیکیورٹی فورسز نے فائرنگ کی جس کے نتیجے میں 19 افراد ہلاک ہو گئے۔

ہلاکتوں کی تعداد میں اضافے کے بعد ایران اور مغربی ممالک کے درمیان کشیدگی میں مزید اضافے کا اندیشہ ہے۔

ایران نے امریکا پر الزام لگایا کہ ’امریکا، ایران میں بدامنی کا فائدہ اٹھا کر ملک کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کررہا ہے۔

ایران انٹیلی جنس وزارت نے میڈیا کو ایک بیان میں کہا کہ 9 نامعلوم افراد کو مظاہر وں کے دوران بدامنی پھیلانے کے الزام میں حراست میں لیا گیا ہے۔

یاد رہے کہ 22 سالہ مہسا امینی کو اخلاقی پولیس نے ’غیر موزوں لباس‘ پہننے کے الزام میں گرفتار کیا تھا، اسلامی جمہوریہ ایران میں خواتین کے لیے لباس پہننے سے متعلق سخت پابندیاں عائد ہیں۔

ایران مہسا امینی کی موت کے بعد ابھرنے والے مظاہروں کو دبانے کے لیے کیے گئے کریک ڈاؤن پر شدید تنقید کی زد میں ہے، یہ مظاہرے پہلی بار عوامی بغاوت میں تبدیل ہوئے اور اسے حالیہ عرصے کے دوران ملک میں ہونے والا سب سے بڑا مظاہرہ مانا جاتا ہے۔

واضح رہے کہ یہ مظاہرے مہسا امینی کے آبائی شہر سے لے کر ایران کے تمام 31 صوبوں تک پھیل چکے ہیں جن میں نسلی اور مذہبی اقلیتوں سمیت معاشرے کے تمام لوگ شامل ہیں۔

انسانی حقوق کی مغربی تنظیموں کا کہنا ہے کہ ایران میں نسلی اور مذہبی اقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک برتا جارہا ہے ۔

دوسری جانب تہران نے ان الزامات کی تردید کردی ہے۔

کریک ڈاؤن

اگرچہ تجزیہ کاروں کے مطابق ایران کے حکمران ان مظاہروں نمٹنے کے لیے مخصوص حکمت عملی اختیار کرے گی اور اپنا دفاع کرنی کی کوشش کریں گے ۔

انسانی حقوق کی تنظیم کا کہنا ہے کہ ایران میں مظاہروں کے دوران دو درجن صحافیوں، سماجی اور انسانی حقوق کے کارکنوں اور ثقافتی شخصیات کو بھی گرفتار کیا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں